سماعت
منتظر ہے میری جانے کب سے
تم ہو کہ خاموشیوں کی آواز بیچتے ہو
اتنی بے ربط محبت بھی کہاں تھی اپنی
درمیاں سے کہیں زنجیرِ سخن ٹوٹی ہے
اُس نے خوشبو سے کرایا تھا تعارف میرا
اَور پھر مجھ کو بکھیرا بھی ہوا ہی کی طرح
اَور پھر مجھ کو بکھیرا بھی ہوا ہی کی طرح
ہر نگاہ کا پتّھر اور میرے بام و در
شہرِ بے فصیلاں میں، کیا ستم ہے، گھر ہونا
میرا کوئی بھی نہیں کائنات بھر میں ندیم
اگر خدا بھی نہ ہوتا تو میں کدِھر جاتا
مجھکو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع، تو دیوان کیا
پیاس کہتی ہے کہ اب ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
وگوں نے گفتگو میں کریدا بہت ہمیں
ہم خود سے ہمکلام تھے اکثر نہیں ملے
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جاۓ گا
ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر
اشک نے بہہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا
فراز آج شکستہ پڑا ہوں بت کی طرح
میں دیوتا تھا کبھی ایک دیوداسی کا
نہیں اس کھُلی فضا میں کوئی گوشہء فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے! نہ قفس نہ آشیانہ
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنا یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
بکهرتی ریت پر کس نقش کو آباد رکهے گا
وہ مجهکو یاد رکهے بهی تو کتنا یاد رکهے گا
عدم ہر مسئلہ دل کا سلجھ سکتا ہے خوبی سے
خرد انسان کی تھوڑی سی گر معقول ہو جائے
یہ دُکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں
ناصر یوں اس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اس جہان کے کھونے نہیں دیا
میلے میں اس جہان کے کھونے نہیں دیا
جو خواہشیں تھی کبھی حسرتوں میں بدل گئیں
مرے لبوں پہ وہ اِک لفظ “کاش“ چھوڑ گیا
دھڑکنیں گونجتی ھیں سینے میں
اتنے سنسان ھو گئے ھیں ھم
اتنے سنسان ھو گئے ھیں ھم
No comments:
Post a Comment